محمد عثمان شہید: تقریر سے تصنیف تک

محمد عثمان شہید کی تقاریر میں برسہا برس سے سنا اور ان کی زبان کے چٹخارے کے مزے لوٹے ہیں ۔

محمد عثمان شہید کی تقاریر میں برسہا برس سے سنا اور ان کی زبان کے چٹخارے کے مزے لوٹے ہیں ۔ بر سر اقتدار طبقہ ، اعلیٰ عہدے داران ، حکمران گروہ کے علاوہ وزراء اور پارلیمانی امیدوار اور حزب اختلاف کے قائدین کو للکارنے کا انداز اختیار کرتے ہوئے جس دکن کے سپوت نے قوت گویائی کے سلیقے کی نمائندگی فرمائی ۔ وہ نہ صرف عوامی مقرر اور خطیب بے بدل کا درجہ رکھتا ہے ۔ بلکہ حیدرآباد کے عدالت العالیہ میں اپنی بے بدل خطابت کے نقوش مرتب کیے ہیں ۔ اردو ذریعہ تعلیم کے مدرسہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اختیار کر کے ہی نہیں بلکہ حیدرآباد کی میونسپل کونسلر شپ حاصل کر کے قائدانہ صلاحیت کا اظہار بھی کیا ۔

زبان و بیان اور اظہار میں باقاعد صلاحیتوں کے داخل ہونے کی وجہ سے ان کی خطابت کی موتیوں کے خزانے لٹتے رہے۔ انہوں نے جب محسوس کیا کہ خطابت کا جادو الفاظ کے زبان سے ادا ہونے کے بعد ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ لیکن تحریر کے جادو میں یہ تاثر ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ زبان کی بقاء کے علاوہ تحریر کا جادو سر چڑھ کر بولنے کے علاوہ تحریر کے وجود تک یادگار رہتا ہے۔ اس طرح قوت گویائی سے زیادہ جان قوت تحریر میں ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے آگاہی کے بعد سماجی ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی ہی نہیں بلکہ ادبی ، علمی اور موضوعاتی مضمون نگاری کی بنیاد رکھی اور صحافت کے توسط سے روزنامہ’ سیاست ‘کی زینت بنائے جانے والے مضامین کو جب کتابی شکل میں شائع کیا تو اندازہ ہوا کہ ان تحریروں میں انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

از: ڈاکٹر محمد معین الدین امر ( بمبو )

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *